مومن ہوں کے پلیٹ فارم پر ہم ایک نکاح تربیتی کورس کا اہتمام کرنے جا رہے ہیں۔ اس کورس کے آغاز سے پہلے یہ ضروری ہے کہ ہم موجودہ دور کے حالات و واقعات کو سمجھیں، جن کی وجہ سے نکاح جیسے مقدس رشتے کی حیثیت کمزور اور کم اہم ہوتی جا رہی ہے۔
نکاح اسلام میں نہایت مقدس اور سنجیدہ بندھن ہے، جو صرف دو افراد ہی نہیں بلکہ دو خاندانوں، نسلوں اور معاشرتی نظام کو جوڑتا ہے۔ لیکن عصرِ حاضر میں ہم دیکھتے ہیں کہ اس بندھن کو توڑنے کا رجحان تیزی سے بڑھ رہا ہے۔ بیس سال پہلے جہاں طلاق ایک نایاب اور تکلیف دہ فیصلہ تھی، آج طلاق ایک آسان حل سمجھ لی جاتی ہے۔ موجودہ دور میں ہر 100 میں سے 20 یا اس سے زائد نکاح طلاق پر ختم ہو جاتے ہیں، جو پہلے بہت کم ہوا کرتا تھا۔
آج ہم ان وجوہات پر مفصل روشنی ڈالیں گے جن کی وجہ سے آج کا انسان نکاح کو کمزور سمجھنے لگا ہے اور طلاق کو معمولی حل تصور کرتا ہے۔
وجوہات:
روحانی کمزوری اور اللہ سے تعلق کی کمی:
نکاح صرف دنیاوی معاہدہ نہیں بلکہ ایک روحانی امانت ہے۔ جب ایمان کمزور ہو اور نکاح صرف وقتی جذبات یا مفادات کی بنیاد پر کیا جائے، تو اس کا نتیجہ عدم برداشت اور آسانی سے رشتہ توڑنے کی صورت میں نکلتا ہے۔
مثال: ایک جوڑے نے چھ ماہ بعد طلاق لے لی کیونکہ بیوی شوہر کے پیشے سے مطمئن نہیں تھی اور نکاح سے پہلے نہ کوئی روحانی رہنمائی لی گئی، نہ مزاج و سوچ کی ہم آہنگی کو پرکھا گیا۔
سوشل میڈیا اور فلمی کلچر کا اثر:
فلموں، ڈراموں، اور سوشل میڈیا نے محبت اور رشتوں کو سطحی اور جذباتی بنا دیا ہے۔ نوجوان انسٹاگرام اور ٹک ٹاک جیسے پلیٹ فارمز سے متاثر ہو کر تعلقات کو تفریح اور فیشن سمجھتے ہیں، جبکہ حقیقت میں رشتہ صبر، قربانی اور مستقل مزاجی کا متقاضی ہوتا ہے۔
اسلامی تعلیمات سے ناآشنائی اور نکاح سے پہلے تربیت کی کمی:
دینی کورسز، نکاح سے پہلے تربیت یا بزرگوں کی رہنمائی کا فقدان ہے، جس کی وجہ سے جوڑے اپنے حقوق و فرائض، صبر و تحمل، اور اختلافات کے حل کے اسلامی طریقوں سے ناواقف ہوتے ہیں۔
انفرادیت پسندی (Individualism):
مغربی طرز زندگی کے اثرات کی وجہ سے آج کا فرد اپنی خوشی، آزادی اور حقوق کو رشتہ سے زیادہ مقدم رکھتا ہے، جس سے صبر، وفا، اور ایثار کمزور ہو گیا ہے۔
صبر کا خاتمہ اور فوری نتائج کی خواہش:
آج کے دور میں ہر چیز جلدی چاہیے، جس کی وجہ سے نکاح میں آزمائشوں کے دوران فوری طور پر رشتہ ختم کر دیا جاتا ہے، حالانکہ شادی ایک پروسیس ہے جس کے لیے وقت، برداشت اور تربیت ضروری ہے۔
فیملی سسٹم کی کمزوری اور بزرگوں کے کردار کا ختم ہونا:
ماضی میں اختلافات کو بزرگ حکمت سے حل کرتے تھے، آج اکثر جوڑے خودمختار زندگی گزارتے ہیں اور اختلافات کے حل کے لیے کوئی ثالث موجود نہیں۔
خودغرضی اور مادہ پرستی:
آج کا انسان اکثر اپنی فریڈم، کمفرٹ، اور مالی آزادی کو نکاح کی قربانی، ایثار اور احترام پر مقدم رکھتا ہے۔
نکاح کو صرف دنیاوی ضرورت سمجھنا:
نکاح کو صرف تنہائی یا معاشی بندوبست کے لیے سمجھنا، حالانکہ یہ ایک عبادت ہے جو تقویٰ اور نیت کے بغیر کامیاب نہیں ہو سکتی۔
حدیث رسول ﷺ:
"نکاح میری سنت ہے، اور جو میری سنت سے روگردانی کرے وہ مجھ سے نہیں۔"
معاشرتی دباؤ اور ناکامی کا خوف:
طلاق کو اب معاشرتی داغ نہیں سمجھا جاتا، اس لیے لوگ نکاح میں دیر تک رہنا نہیں چاہتے، جس سے نکاح کا اعتماد کمزور ہوتا ہے۔
حقوقِ نسواں اور مردوں کے خلاف عمومی رائے:
کچھ حلقے عورت کو مکمل آزاد کرنے کے نام پر مردوں کے خلاف ایسا بیانیہ دیتے ہیں کہ عورت نکاح کو قید اور شوہر کو ظالم سمجھنے لگتی ہے، اور بعض مرد عورت کو غلام سمجھتے ہیں، جو رشتے کو نقصان پہنچاتا ہے۔
حل اور تجاویز:
-
قبل از نکاح تربیتی کورس لازم ہوں جیسے یہ کورس جو ہم بنا رہے ہیں۔
-
دینی تعلیم، خاص طور پر ازدواجی حقوق و فرائض کی تربیت ہر نوجوان کے لیے ضروری ہو۔
-
روحانی مشقیں جیسے دعا، ذکر، اور اللہ سے تعلق نکاح میں برکت لاتی ہیں۔
-
فیملی اور بزرگوں کی شمولیت اختلافات کے حل میں مدد دیتی ہے۔
-
پری میرج اور پوسٹ میرج کونسلنگ سسٹمز بنائے جائیں جو روحانی، جذباتی اور سماجی تجزیے فراہم کریں۔
آج نکاح کو آسان سمجھنا ایک معاشرتی، روحانی اور اخلاقی بحران ہے۔ وقت ہے کہ ہم نکاح کو دوبارہ اس کی اصلیت کے ساتھ متعارف کروائیں — یعنی ایک امانت، عبادت، اور اللہ کے قرب کا ذریعہ۔ طلاق جائز مگر آخری حل ہے، نہ کہ پہلی راہ فرار۔ اگر ہم نکاح سے پہلے نیت، علم، اور روحانی تربیت کے ساتھ قدم رکھیں تو ہمارا معاشرہ طلاق کے عذاب سے محفوظ ہو سکتا ہے۔