بسم اللّٰہ الرحمٰن الرحیم

”میری شریکِ حیات – ضرورت یا امانت؟”

  1. تعارف:

            اہلِ بیت علیہم السلام کی تعلیمات ہمیں سکھاتی ہیں کہ بیوی یا شوہر صرف ضرورت نہیں، بلکہ ایک الٰہی امانت ہے۔ یہ ایک ایسا وجود ہے جسے اللہ نے ہمارے سپرد کیا — آزمائش بھی، نعمت بھی، اور محبت کا مظہر بھی۔

  1. قرآن سے رہنمائی:

آیت 1:

“هُنَّ لِبَاسٌ لَّكُمْ وَأَنتُمْ لِبَاسٌ لَّهُنَّ”

(سورۃ البقرۃ 2:187)

“وہ (بیویاں) تمہارا لباس ہیں اور تم اُن کا لباس ہو۔”

لباس کا مطلب کیا ہے؟ لباس وہ ہوتا ہے جو:

  • آپ کو سردی گرمی سے بچاتا ہے،
  • آپ کی کمزوریوں کو چھپاتا ہے،
  • آپ کی شخصیت نکھارتا ہے،
  • اور آپ کو تحفظ دیتا ہے۔

اسی طرح شریکِ حیات بھی ہمیں دنیا کی آزمائشوں سے بچاتا ہے، ہماری خامیوں پر پردہ ڈالتا ہے، ہماری روحانی حفاظت کرتا ہے، اور زندگی کی زینت بنتا ہے۔

آیت 2:

“وَعَاشِرُوهُنَّ بِالْمَعْرُوفِ”

(سورۃ النساء 4:19)

“اور ان (عورتوں) کے ساتھ نیکی اور حسن سلوک سے زندگی گزارو۔”

یہ آیت صرف اخلاقی تعلیم نہیں، بلکہ ایک عبادتی ہدایت ہے۔ نرمی، محبت، عزت، برداشت — یہ سب نکاح کا جز ہیں۔

  1. احادیث و اقوالِ معصومینؑ:

حدیثِ نبوی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم:

“تم میں سب سے بہترین وہ ہے جو اپنے اہل (بیوی) کے ساتھ بہترین سلوک کرتا ہے، اور میں تم میں سب سے بہتر ہوں اپنے اہل کے لیے۔”

(کنز العمال)

قولِ امام زین العابدینؑ – رسالۃ الحقوق:

“بیوی کا حق یہ ہے کہ تم جان لو کہ اللہ نے اسے تمہارے لیے سکون، محبت اور رحمت کا وسیلہ بنایا ہے۔ تمہیں چاہیے کہ اس نعمت پر اللہ کا شکر ادا کرو۔”

قولِ امام صادقؑ:

“جو شخص اپنی بیوی کو ایذا پہنچائے، اللہ اُس کی نماز، روزے، حج، زکات کچھ قبول نہیں کرتا۔ یہاں تک کہ وہ اسے خوش نہ کرے۔”

(وسائل الشیعہ)

  1. تربیتی مثال – ایک تمثیل: “امانت کا صندوق”

فرض کریں آپ کو ایک عظیم بادشاہ نے ایک صندوق دیا ہو، اور کہا ہو:

“یہ صندوق میرے خزانوں میں سے ہے۔ اس میں میرے قیمتی جواہرات ہیں۔ تمہیں صرف ایک کام کرنا ہے — اس کی حفاظت، عزت، اور قدر۔”

آپ روز اُس صندوق کو دیکھیں، صاف کریں، عزت دیں، اور اس میں جھانک کر دعا کریں:

“اےاللہ! تو نے جو امانت دی ہے، اس کی حفاظت کرنی میری عبادت ہے۔”

اب ذرا سوچیں: کیا آپ اُس امانت پر غصہ کریں گے؟ کیا اُس پر چیخیں گے؟ کیا اُس کی بے توقیری کریں گے؟ ہرگز نہیں!

اسی طرح، شریکِ حیات بھی وہی امانت ہے۔

اور اللہ دیکھ رہا ہے: آپ اس امانت کے ساتھ کیسا سلوک کرتے ہیں۔

  1. روزمرہ کی تربیت کے 5 نکتے:
  2. محبت بولیے:

روزانہ کم از کم ایک بار شریکِ حیات سے کہیے:

“میں تمہیں اللہ کی امانت سمجھتا ہوں — تم میری ضرورت نہیں، میری نعمت ہو!”

  1. غصے کے وقت خاموشی:

جب دل کرے کہ بول پڑیں، اُس وقت خاموش رہیں — یہ قربانی عبادت بن جاتی ہے۔

  1. دعا میں شامل کریں:

“اے اللہ! میری شریکِ حیات کے دل میں میرا احترام اور تیری محبت پیدا فرما۔”

  1. وقت دیجیے:

روزانہ کم از کم 15 منٹ بغیر موبائل، بغیر ٹی وی، صرف ہمسفر کے ساتھ۔

  1. نیت کی تجدید:

ہفتے میں ایک بار یہ نیت دُہرائیں:

“میں اس نکاح کو تیری رضا، رحمت اور امانت داری کے ساتھ نبھاؤں گا۔”

  1. آزمائش – میرے دل کی گہرائی سے:

اپنے دل سے پوچھیں:

  1. کیا میں اپنی بیوی/شوہر کو “لباس” جیسی عزت دیتا ہوں؟
  2. کیا میں ان کے جذباتی زخموں کو محسوس کرتا ہوں؟
  3. کیا میں اس رشتے کو دنیاوی نہیں بلکہ آخرت کا وسیلہ سمجھتا ہوں؟
  4. کیا میں اُن کی خطاؤں پر درگزر کرتا ہوں جیسے اللہ میری کرتا ہے؟

جرنل میں لکھیں:

  • میری شریکِ حیات کی تین خوبیاں
  • میرے اندر تین کوتاہیاں جو میں سدھارنا چاہتا ہوں
  • ایک دُعا جو میں روز اُن کے لیے مانگوں گا
  1. واقعہ – “امانت کی حفاظت”

حضرت امام علیؑ ایک دن گھر آئے اور حضرت فاطمہ زہرا سلام اللہ علیہا گھر کے کاموں میں مصروف تھیں۔ آپؑ نے فرمایا:

“فاطمہؑ! تم نے آج کتنے کام کیے؟”

حضرت فاطمہؑ نے کام گِنوانے شروع کیے — آج میں نےآٹا پیسا، پانی بھرا، بچوں کو سنبھالا، کپڑے دھوئے۔

امامؑ خاموشی سے سُن کر آبدیدہ ہو گئے اور فرمایا:

“فاطمہؑ! تمہاری خدمت جنت کے حقدار بناتی ہے۔ تم اللہ کی طرف سے مجھے دی گئی سب سے قیمتی امانت ہو۔”

  1. دعائیں – لباسِ محبت کے لیے

اللّٰهُمَّ اجْعَلْ زَوْجِي لِي نُورًا فِي الدُّنْيَا وَسَبَبًا لِلنَّجَاةِ فِي الْآخِرَةِ، وَاجْمَعْ بَيْنَنَا فِي مَحَبَّتِكَ وَرِضْوَانِكَ

“اے اللہ! میرے شریکِ حیات کو دنیا میں میرا نور اور آخرت میں نجات کا ذریعہ بنا دے، اور ہمارے دلوں کو اپنی محبت میں جوڑ دے۔”

  1. عمل کی دعوت – عملی اقدامات:

آج کے تین قدم:

  1. دُعائیہ نوٹ لکھیں:

“یا اللہ! میری شریکِ حیات میرے لیے ایک لباسِ محبت، لباسِ تحفظ اور لباسِ رحمت بن جائے۔”

  1. محبت بھرا جملہ کہیں:

اپنی شریکِ حیات کو کہیں:

“میں تمہیں صرف پسند نہیں کرتا — میں تمہیں اللہ کی طرف سے ایک امانت سمجھتا ہوں۔”

  1. نیت کا عہد کریں:

اپنے دل میں کہیں:

“میں نکاح کو صرف اپنی ضرورت نہیں، اللہ کی نعمت اور امانت سمجھ کر نبھاؤں گا۔”

گھر آپ کے لیے ایک زداد کی حکومت کی پہلی سلطنت ہوتی ہے۔

جب آپ اپنے گھر کی سلطنت کو بہترین طریقے سے لے کر چلنے کے قابل ہو جاتے ہیں، تو پھر آپ معاشرے کو لے کر چلنے کے قابل ہوتے ہیں۔

ہمیں ایک صحت منگ خوبصورت معاشرہ تشپیر دینا ہے اور اس کے لیے جو پہلی دستگاہ ہے وہ انسان کا اپنا گھر ہے۔ اس پر ہم اپنی کوشش آپ کے سامنے پیش کر رہے ہیں۔

ہمیں امید ہے کہ آپ کو یہ سب باتیں پسند آتی ہوں گی۔

اللہ کرے آپ کا نکاح آپ کے زندگی کے سب سے حسین اور برکت رشتہ ثابت ہو۔

اپنا اور اپنے گھر دنواحی کے لوگوں کا خیال رکھیں۔ ان کے آپ پر حقوق ہوتے ہیں، ان کے حق عطا کرتے رہیں۔


Share this post


Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *