بسم اللہ الرحمن الرحیم

آج ہم ایک ایسے سبق کی جانب بڑھ رہے ہیں،

جو آپ کے دل کے نہاں خانوں کو چھوئے گا، آپ کی سوچ کو جھنجھوڑے گا اور آپ کے نکاحی سفر کے لیے ایک روحانی چراغ ثابت ہوگا۔

یہ ہماری چوتھی کلاس ہے

اور آج کی کلاس کا موضوع ہے

 “اسلامی ازدواجی زندگی کے بنیادی اصول “

چونکہ آپ تین سبق مکمل کر چکے ہیں، اب وقت ہے کہ ہم آپ کی تیاری کا جائزہ بھی لیں۔

ہم آپ سے فرضی حالات کے ذریعے یہ جانیں گے کہ

“اگر آپ نکاح کے بندھن میں بندھ چکے ہوتے، تو آپ کیسے ردِعمل دیتے؟”

اور ہم آپ کے جوابات کو اہلِ بیتؑ کی تعلیمات کے پیمانے پر تول کر آپ کو بتائیں گے کہ آپ کہاں کھڑے ہیں۔

یہ نہ صرف سیکھنے کا ایک انداز ہوگا بلکہ ہمارے درمیان تعلق کو بھی مضبوط کرے گا۔ ان شاءاللہ۔

تعارف: نکاح – صرف ساتھ رہنے کا نہیں، ساتھ نبھانے کا معاہدہ

اسلامی ازدواجی زندگی صرف چھت، چار دیواری، اور ساتھ جینے مرنے کا وعدہ نہیں – یہ ایک مقدس معاہدہ ہے جو عرشِ الٰہی پر طے پاتا ہے۔ یہ معاہدہ عدل، محبت، احسان، صبر اور وفاداری جیسے خدائی اصولوں پر قائم ہوتا ہے۔

یہ معاہدہ ہمیں یہ سکھاتا ہے کہ نکاح صرف جسمانی یا معاشرتی ضرورت نہیں، بلکہ ایک روحانی سفر ہے جس میں دو انسان اللہ کی رضا کے لیے ایک دوسرے کے لباس بنتے ہیں۔

قرآن کی روشنی میں ازدواجی زندگی کی روح

قرآن صرف ہمیں نکاح کا حکم نہیں دیتا بلکہ اس میں سکون، محبت اور رحمت کا خزانہ رکھتا ہے۔

جیسا کہ سورہ روم کی آئیت ۲۱ میں فرمایا

وَجَعَلَ بَيْنَكُم مَّوَدَّةً وَرَحْمَةً

(الروم 30:21)

“اور اُس (اللہ) نے تمہارے درمیان محبت اور رحمت پیدا کی۔”

یہ محبت صرف وقتی جذبہ نہیں، بلکہ وہ جذبہ ہے جو مشکلات میں ایک دوسرے کا سہارا بنے، جو خاموشی میں دلوں کو جوڑے۔

اور سورہ النسّا کی ۱۹ ویں آئیت ہے کہ

وَعَاشِرُوهُنَّ بِالْمَعْرُوفِ

(النساء 4:19)

“اور ان (بیویوں) کے ساتھ نیکی سے پیش آؤ۔”

یہ نیکی کبھی نرم لہجے سے، کبھی تحفے سے، کبھی معافی سے، کبھی سننے سے  کبھی سنانے سے  ظاہر ہوتی ہے۔

سورت النسّا میں ہی فرمایا
إِنَّ اللَّهَ يَأْمُرُكُمْ أَن تُؤَدُّوا الْأَمَانَاتِ إِلَىٰ أَهْلِهَا

(النساء 4:58)

“یقیناً اللہ تمہیں حکم دیتا ہے کہ امانتیں ان کے حق داروں تک پہنچاؤ۔”

شوہر اور بیوی ایک دوسرے کے لیے اللہ کی امانت ہیں۔ اور امانتوں کے ساتھ سب سے پہلا فرض ہے - احترام اور حفاظت۔

اس آئیت  کی تشریح اس حدیث سے واضع ہوتی ہے۔

نبی اکرمؐ:

“عورت تمہاری امانت ہے، اللہ سے ڈرو اور اس کے ساتھ نرمی اور حسنِ سلوک کرو۔”

(کنزالعمال)

امام علیؑ:

“عقل مند شوہر وہ ہے جو اپنی بیوی کے دل کو جیتنے کے لیے اپنے غصے کو پی جائے۔”

بی بی فاطمہ زہراؑ:

“شوہر کا چہرہ دیکھنا اور اس کی رضا طلب کرنا عبادت ہے، جب وہ بھی اللہ کی اطاعت میں ہو۔”

یہ اقوال ہمیں بتاتے ہیں کہ ازدواجی زندگی مقابلہ نہیں، بلکہ مکمل کرنے کا عمل ہے۔

ازدواجی زندگی کے پانچ اسلامی اصول

  1. محبت:

روزمرہ الفاظ، چھوٹے کاموں اور وقت دینے کے ذریعے محبت کا اظہار۔

  1. عدل:

جذبات، مالیات، وقت، اور فیصلوں میں انصاف۔

  1. وفاداری:

نیت، نظر اور عمل میں اخلاص – چاہے کوئی دیکھے یا نہ دیکھے۔

  1. مشورہ:

ہر بڑے فیصلے میں شریکِ حیات کی رائے لینا، اسے اہم محسوس کروانا۔

  1. صبر:

غصے، تنقید، اور اختلافات میں برداشت اور درگزر۔

روزانہ کا خود احتسابی جائزہ

ہر رات سونے سے پہلے یہ پانچ سوال اپنے دل سے کریں:

  1. کیا میں نے آج محبت کا اظہار کیا؟
  2. کیا میں نے انصاف سے کام لیا؟
  3. کیا میرے عمل میں وفاداری تھی؟
  4. کیا میں نے شریکِ حیات کی بات سنی؟
  5. کیا میں نے کسی بات پر صبر کیا؟

یہ سوالات آپ کو خود بہتر بنانے کا موقع دیتے ہیں – بغیر الزام دیے، بغیر دفاع کے۔

فرضی صورتِ حال: “محبت کی آزمائش

کہانی:

علی اور زینب کی نئی نئی شادی ہوئی ہے۔ علی کی آمدنی محدود ہے۔ وہ کفایت شعاری سے زندگی گزارنے کی کوشش کر رہا ہے۔

زینب، جو ایک مڈل کلاس گھرانے سے ہے، ہر ہفتے باہر کھانے یا کچھ نیا خریدنے کی خواہش رکھتی ہے۔

علی تھک چکا ہے، اور ایک دن جھنجھلا کر کہتا ہے:

“مجھے ایسا لگتا ہے کہ تم میری ضرورتیں نہیں سمجھتیں!”

سوال:

ایسے وقت میں اگر علی، امام علیؑ کے علم و حلم کو یاد کرتا، تو اُس کا کیا جواب ہوتا؟

اور زینب، اگر بی بی فاطمہ زہراؑ کی تربیت کو یاد رکھتی، تو اُس کا ردِعمل کیا ہوتا؟

جواب:

اگر علی اپنے امام علیؑ کو یاد کرے، تو وہ کچھ دیر خاموش ہو کر خود سے کہے:

 کیا میں نے اُس عورت سے شکوہ کیا ہے جس نے اپنا سب کچھ میرے لیے چھوڑا؟ کیا یہ بہتر نہ ہوتا کہ میں اُس سے محبت سے بات کرتا؟

پھر وہ زینب کے پاس آتا اور نرم لہجے میں کہتا:

“زینب، میں جانتا ہوں کہ تم کچھ خوشی چاہتی ہو، لیکن میری محدود آمدنی کے سبب میں ہر بار ممکن نہیں بنا پاتا۔ مجھے تمہاری سمجھ داری کی ضرورت ہے۔”

زینب، اگر بی بی فاطمہؑ کو یاد کرے، تو وہ سوچتی:

پھر وہ علی کے ہاتھ تھام کر کہتی:

“مجھے معاف کرنا، علی۔ میں صرف تمہارے ساتھ وقت گزارنا چاہتی ہوں – چاہے وہ چائے کے کپ پر ہو یا کسی پارک میں واک پر۔ مجھے تمہاری فکر ہے۔”

اب آپ بتائیں:

  • اگر آپ علی ہوتے، تو کیا جواب دیتے؟
  • اگر آپ زینب ہوتے، تو کیا محسوس کرتے؟

اپنا جواب ہمیں کمنٹ میں دیں – ہم آپ کے ہر لفظ کو اہلِ بیتؑ کی روشنی میں دیکھیں گے اور آپ کو سکھائیں گے کہ بہتر ردِعمل کیا ہو سکتا ہے۔

خصوصی دُعا: ازدواجی زندگی کے استحکام کے لیے

اللّٰهُمَّ اجْعَلْنَا مِنَ الَّذِينَ يَحْفَظُونَ حُدُودَكَ فِي الزَّوَاجِ، وَارْزُقْنَا الْمَوَدَّةَ وَالرَّحْمَةَ وَالْعَدْلَ وَالْإِيمَانَ فِي بُيُوتِنَا۔

“اے اللہ! ہمیں اُن لوگوں میں شامل فرما جو نکاح میں تیرے حدود کی حفاظت کرتے ہیں،

اور ہمارے گھروں میں محبت، رحمت، عدل اور ایمان کو جاری فرما۔

آج کا ٹاسک

اپنی شریکِ حیات یا ہونے والے شریکِ حیات کے لیے کوئی چھوٹا مگر محبت بھرا عمل کریں:

  • دل سے پانی کا گلاس دینا
  • شکریہ کہنا
  • یا دِل کی گہرائی سے دُعا کرنا

اگر آپ غیر شادی شدہ ہیں تو، ایک دُعائیہ نوٹ لکھیں جو آپ اپنے ہونے والے شریکِ حیات کو دینا چاہیں گے۔

آج کا سبق صرف سُننےکے لیے نہیں تھا یہ بدلنے کے لیے تھا۔

نکاح صرف ساتھ رہنے کا نام نہیں، ساتھ سنبھالنے اور نبھانے کا ہُنر ہے۔

کیا آپ تیار ہیں؟

اگلے سبق میں ایک نہایت اہم موضوع کے ساتھ حاضر ہونگے۔

تب تک… اپنی تربیت جاری رکھیں، اپنے دل کو نرمی سے سنواریں، اور محبت کو عبادت سمجھ کر بانٹتے رہیں۔


Share this post


Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *